درج فہرست ذات اور درج ۔ہرست قبائل ذیلی زمرے میں آتے ہیں

                                        تحریر:۔لطیف الزمان دیوا

پنڈت نہرو کی کاوشوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ1947ئ میں 14اور15اگست کی درمیانی شب جدید بھارت کے سفر کی شروعات کا اعلان ہوا۔یہ وہ وقت تھاجب ملک کے سبھی باشندوں کی صلاحیتوں کو قبول کرنے، ان کو بروئے کار لانے اور پروان چڑھانے کےلئے اُس وقت کی سرکار وعدہ بند تھی۔
درجِ فہرست ذاتوں اور قبائل کی ذلت آمیز زندگی ، تاسف انگیز حالات ، سماجی حقوق سے محرومی اور معاشرتی مقاطعہ کو دیکھتے ہوئے جس شدت کے ساتھ آئین ساز اسمبلی کے ممبران نے ان کےلئے تحفظات کی سفارش کی، وہ سب دیکھ کر بیسویں صدی کے انسان کو یہ مثبت منصوبہ تسلیم کرنا پڑا۔ اس منصوبے نے سرکاری نوکریوںاورلوک سبھا وریاستی قانون ساز اسمبلیوں میںریزرویشن(تخصیص) کی صورت اختیار کی۔اس کی ناگزیریت بھارت سرکار کے 1935کے ایکٹ میںبھی ملتی ہے، جسکے تحت فرقہ وارانہ بنیاد پر دو بڑے فرقوں کو نمائندگی ملتی تھی۔ اس میں سماجی انصاف کے سائے میں پسماندہ طبقوںبشمول درج فہرست ذات ، خواتین اور مزدوروں کےلئے نظم و نسق کا خصوصی انتظام بھی شامل تھا۔
قانونی ڈھانچہ
درجِ فہرست قبائل، درجِ فہرست ذات اورسماجی و تعلیمی طور پسماندہ بھارتی باشندوں کےلئے تخصیص( ریزرویشن) کا انتظام و انصرام بھارتی آئین کے دفعات15(4) اور 16(4)کے تحت ہوتا ہے۔صرف مذہب،ذات، نسل یا جنس کی بنیاد پرہر طرح کے امتیازی سلوک کے خلاف سرکار کی جانب سے دفعات 15 (1) اور(2) کے تحت دی جانے والی ضمانت پر دفعات15(3) اور(4) دو مستثنیات تشکیل پاتے ہیں۔اولاً حکومت کو خواتین اور بچوں کے فائدے کےلئے تدبیر سازی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔ ثانیاًدفعہ 29(2) کے باوجود درجِ
٢
فہرست ذاتوں ، درجِ فہرست قبائل اور سماجی و تعلیمی لحاظ سے پسماندہ طبقوں کی ترقی کےلئے اسی احسان مندانہ برتاو کووسعت دی گئی ہے۔درجِ فہرست ذاتوں اوردرجِ فہرست قبائل کے مطالبات پر غور کرنے کےلئے دفعہ 335میں ایک خاص مد شامل ہے اور اس طرح یہ ان کے لئے سرکارکی مطلق العنانی کے خلاف غیر منفک ڈھال کا کام کرتا ہے۔دفعہ 16(4)حکومت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ان پسماندہ طبقوں کےلئے اسامیوں کی تقرری کی خاطر ریزرویشن (تخصیص)تشکیل دے، جوسرکار کی نظر میں ،حکومت کے بااختیار افراد کی جانب سے کئے گئے سروے کی رو سے سرکاری نوکریوں میں بھر پور نمائندگی نہیں کرتے ہیں۔دفعہ 366 (24)اور (25)کی رو سے بالترتیب درجِ فہرست ذاتوں اوردرجِ فہرست قبائل کی وضاحت کی گئی ہے۔صرف صدر جمہوریہ ذات، نسل یا قبائل یا تین زمروں کی کچھ حصوں کی تصریح عوامی نوٹیفکیشن کے تناظر میں دفعہ 341کے تحت ’’درجِ فہرست ذات ‘‘ اور دفعہ342کے تحت ’’درجِ فہرست قبائل ‘‘ کے طور کرتا ہے۔مرکزی سرکار کے محکموں اور مرکز کے زیر انتظام دیگر اداروں میںدرجِ فہرست ذاتوں کےلئے15فیصد اوراوردرجِ فہرست قبائل کےلئے 7.5فیصد اسامیاں مختص ہیں اور لوک سبھا میں ان کا حصہ ان کی آبادی کے تناسب کے حساب سے بالترتیب مختص ہے۔
پسماندہ طبقے
بھارت سرکار کے 1935ئ کے قانون کے تحت برطانوی ہندوستان کی 12فیصد سے زیادہ آ بادی کو ووٹ دینے کا حق نہیں تھا۔اس طرز نے بھارت کے پہلے سے خوابیدہ سیاسی منظر نامے کو ایک سیاسی فعال پذیری کی طرف دھکیل دیا اور متاثرین میں یہ توقع جاگ اُٹھی کہ آزادی کے بعد انہیںغربت سے نجات مل ے گی، ان کا وقار یقینی بنے گا اور انہیں سرکاری نوکریوں میں حصہ مل ے گا۔اور اس طرح ان کی حالت میں سدھار آئے گا۔آئین کی رو سے د رجِ فہرست ذاتوں اوردرجِ فہرست قبائل کےلئے ریزرویشن(تخصیص) کی ضمانت کے تناظر میں، سماجی و اقتصادی پیمانے پریکساں ابتلا کے شکار یہ لوگ بھی قومی وسائل اورروزگار کے موقعوں میں اپنا حصہ پانے کی توقع رکھتے تھے۔اسی سے حکومت کو 1953ئ میں پہلا ’’بیک وارڈ کلاسسز کمیشن‘‘ (کیلکر کمیشن) تشکیل دینے کی تحریک ملی۔ اس کمیشن نے 1955ئ میں اپنی رپورٹ داخل کی۔ لیکن بڑی مقدارمیںذاتوںکی پسماندہ طبقوں اور ان میں سے برابر کی مقدار کے نہایت پسماندہ ہونے کے طور نشاندہی کئے جانے کے نتیجے میں یہ رپورٹ عملائی نہیں جاسکی۔پسماندہ طبقوں کی سیاسی، سماجی اور معاشی امنگوں کو کمزور کرنے کےلئے ذات پات سے مبرا
٣
ایک ایسے سماج کی تشہیر کی گئی، جس میں اس کی جامع ترقی اور اقتصادی فروغ کا کوئی نقش راہ نہیں تھا۔ساٹھ اور ستر کی دہائی میں اشتراکیت پسندبشمول جن سنگ(بی جے پی کا پیش رو) میں پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھنے والے لیڈر سماجی انصاف کے محور پر جمع ہوگئے۔اس کے نتیجے میں1979میں منڈل کمیشن (MC) کے نام سے پسماندہ طبقوں کےلئے دوسرا کمیشن معرض وجود میںآیا۔ اس کمیشن نے دسمبر1980میں اپنی رپورٹ پیش کی، جو 1990تک التوا میں رہی۔ سال1990ئ میں وی پی سنگھ کی قیادت والی مخلوط سرکار نے ا س رپورٹ کو منظور کرکے لاگو کیا۔
کسی بھی ریاست یا ضلع میں ذات یا نسل کے تعلق سے پسماندہ طبقے کا تعین کرنے میںمنڈل کمیشن کی جانب سے سماجی، معاشی اور تعلیمی لحاظ سے ابھارے گئے گیارہ نکات عصر حاضر میں بھی اسی قدر مناسب و موزوں ہیں، جس قدر وہ 1979-1980کے دور میں تھے۔ذات یا نسل کو پسماندہ طبقہ قرار دینے میںمنڈل کمیشن کی جانب سے اپنائے گئے اس اصول ، کہ مذکورہ ذات یا نسل نے ریاست یا ضلع کی اوسط کی مناسبت سے گیارہ میں سے گیارہ پوائنٹ حاصل کئے ہوں، کی سراہنا کی جا سکتی ہے۔ان میں وجہ معاش کے مزدور، کچے رہائشی مکان،سرکاری نوکریوں میں حصہ، شرح خواندگی، میٹرک پاس اور گریجویٹس کا حصہ، دیہی اور شہری علاقوں میںمرد و زن کی شادی کی عمر، کام میں خواتین کی شراکت داری،سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد، سکول چھوڑنے والے طلبا کی تعداد، خاندانی اثاثوں کی اوسط مالیت اور گھریلو ساز و سامان کے حصول کےلئے لئے گئے قرضوں (consumption loans)کی وقوع پذیری شامل ہیں۔سرکار کی جانب سے منظور کی گئی رپورٹ ملک کی 54.4فیصد آبادی کا بطور پسماندہ طبقہ احاطہ کرتا ہے، لیکن تخصیص( ریزرویشن) کا فیصد نصف کرکے اس کو27تک محدود کرنا کمیشن کا ایک دانستہ فیصلہ تھا، جس کو سرکار نے کوئی ہیت تبدیل کئے بغیر منظور کیا اور اس طرح ریزرویشن کی مجموعی شرح کی بالائی حد 50فیصد مقرر ہوئی۔ہزار ہا معاملات میںعدالت عالیہ کی جانب سے مقرر کئے گئے 50فیصد کے قانونی عدد سے تجاوز نہ کرنے اورپس منظرکے ایک طرف درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل اور دوسری طرف پسماندہ طبقوں و دیگراں میں فرق کو تسلیم کرنے کے مقصد سے آبادی کے قابل پیشگوئی تناسب کے تعلق سے ریزرویشن کا فیصد مقرر کرنے کے اصول نے قانونی ریزرویشن کے فیصد کو کم کرنے کی راہیں ہموار کردیں۔
بھارت سرکار میںاب د رج فہرست ذاتوں، درج فہرست قبائل اور دیگر پسماندہ طبقوں کےلئے مجموعی ریزرویشن 49.5فیصدہے۔2019کے 103ویں آئینی ترمیمی ایکٹ کی رو سے اوپن میرٹ کوٹا میں سے 10فیصد
٤
ریزرویشن (تخصیص)معاشی طور کمزور طبقوں کےلئے مقرر کی گئی ہے، اور اس طرح عمومی زمرے کے امیدواروں کا کوٹا کم ہوکر 40.5فیصد رہ گیا ہے۔جسمانی طور خاص افراد کےلئے4فیصد اور سابق فوجیوں کےلئے10سے20فیصد سبھی زمروں کو متاثر کرتا ہے۔جسمانی طور خاص افراد اور سابق فوجیوں کو چھوڑ کر ریزرویشن کا فیصد عملی طور 59.5فیصد تک بڑھ گیا ہے(روسٹر پوائنٹس کی بنیاد پر ہر ایک زمرے کے مابین)۔
عدالتی توسط
اندرا ساہنی و دیگراںبنام بھارت سرکار (1992)معاملے میں سپریم کورٹ کی 9جج صاحبان پر مشتمل ایک آئینی بینچ نے دیگر پسماندہ طبقوں کےلئے 27فیصد ریزرویشن کو برقرار رکھا۔اس طبقے کے مالدار لوگوں کو تخصیص کے فوائد لینے سے عاجز کرنے کی خاطر”Creamy Layer”کا تصور متعارف کیا، ریزرویشن (تخصیص)کی بالائی حد کو 50فیصد رکھنے کا عزم دہرایااور ترقیوں میں ریزرویشن کو خارج کرنے کا قانون عائد کردیا۔ترقیوں میں تخصیص کی ممانعت کو 1995کے آئینی ترمیمی ایکٹ کے تحت ختم کیا گیا، جس کو ایم ناگاراج بنام بھارت سرکار (2006)معاملے میں بھی درست قرار دیا گیا۔عدالت عظمیٰ نے 7نومبر2022ئ کو جن ہت ابھیان بنام بھارت سرکار معاملے میں 2019کی آئین کی 103ویں ترمیم کے تحت معاشی طور کمزور طبقوں کے لئے مقرر کی گئی10فیصد ریزرویشن کو بھی برقرار رکھا۔
جموں و کشمیر کا منظر نامہ
قد آور لیڈرشیخ محمد عبداللہ کی جانب سے 1944ئ میںجاری کی گئیں سماجی۔سیاسی ۔معاشی عہد ناموںنے سماجی انصاف کی بنیادیں رکھیں، جس کی عکاسی 1957کے جموں و کشمیر کے آئین میں ہوئی، جس کی اب تنسیخ کی گئی ہے۔
1947ئ سے1967ئ تک قانونی ریزرویشن(تخصیص) کی عدم موجودگی کے چلتے سرکاری محکمے خالی اسامیوں کی تشہیر کئے بغیر ازخود یا جہاں کہیں ریکروٹمنٹ بورڈ تشکیل دئے گئے تھے، ان کے ذریعے تقرری عمل میں لایا کرتے تھے ۔یہ ادارے امیدوارں کے حتمی انتخاب کے عمل میں اپنی دانست سے ہی ان کی سماجی و معاشی حالت اور ان کے علاقہ رہائش کو ملحوظِ نظر رکھتے تھے۔1953ئ کے بعد سرکاری نوکری پانے کو سیاسی استحقاق کے حصول کےلئے استعمال کیا جاتا تھا اور مرکزی سرکار اس کی تائید کرتی تھی۔گزیٹیڈ اسامیوں پر بھرتی یا تقرری کا عمل
٥
پہلے پہل تقسیمِ ملک سے قبل کی سٹیٹ ایجنسی کے متبادل فورم کے ذریعے عمل میں لایا جاتا تھا اور 1957سے یہ کام جے اینڈ کے پبلک سروس کمیشن انجام دیتا ہے۔پی بی گجیندر گاڈکر کمیشن کی سفارش پرریاستی سرکار نے آڈر نمبر252-GDبتاریخ 3فروری1969ئ کو جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس، جے این وزیر کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی، جس کو ریاست میں سماجی و تعلیمی پسماندگی کی بنیاد پر پسماندہ طبقوں کی نشاندہی کا ذمہ سونپا گیا۔
وزیر کمیشن کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے ریاستی سرکار نے جموں و کشمیر درج فہرست قبائل و پسماندہ طبقہ جات (ریزرویشن)قوانین 1970اور جموں و کشمیر درج فہرست قبائل و پسماندہ طبقہ جات ریزرویشن (ترقی کی رو سے تقرری) قوانین 1970ترتیب دئے۔ان قوانین کو عدالت عظمیٰ میں جانکی پرساد پارمو و دیگراں بنام ریاست جموںو کشمیر و دیگراں کے معاملے میں WP(رِٹ پیٹشن)نمبر 175, 359 اور 360کے تحت چلینج کیا گیا۔عدالت نے ان قوانین کو1973کے فیصلے کی رو سے متصادم قرار دیتے ہوئے ان میں خامیوں کی نشاندہی کی اور ان میں معقولیت لانے تک ناقابل نافذ العمل قرار دیا۔اس فیصلے کی تعمیل کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کی جانب سے ابھاری گئی خامیوں کو دور کرنے اوردیگر متعلقہ معاملات کا جائزہ لینے کی خاطر ایک سرکاری آرڈر زیر نمبر 540-GRآف1976بتاریخ 24-08-1976کے تحت جسٹس آدرش سین آنند کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔سماجی و تعلیمی پہلووں پروزیر کمیٹی کی توجہ سے اپنا دھیان ہٹاتے ہوئے آنند کمیٹی نے پسماندہ طبقے کے تعین کےلئے اس میںمعاشی پہلو بھی شامل کیا۔آنند کمیٹی کی سفارشات نے پسماندہ طبقوںکی نامزدگی میںان کی سماجی و تعلیمی پسماندگی کے تصور کو یکسر تبدیل کرکے اس کو مخصوص علاقے کی سماجی، تعلیمی و معاشی پسماندہ حالت پر مرکوز کردیا۔ اس طرح ایک پسماندہ علاقے یا گاوںکے ذات سے بالاتر پسماندہ قرار دئے گئے سبھی مستندباشندے بشمول حقیقی کنٹرول لائن پر رہنے والے لوگ ریزرویشن کے حقدار بن گئے، بشرطیکہ وہ اس ضمن میں لازمی قرار دی گئیں شرائط پورا کرتے ہوں۔
آنند کمیٹی کی رپورٹ کو منظورکئے جانے کے بعد ڈپٹی کمشنروں اور نظامت معاشیات و شماریات کو تازہ درخواستیں موصول ہونے کے تناظر میں وقتاً فوقتاً تحقیق و تصدیق کا کام سونپا گیا، جس سے ذات کی بنیاد پراضافی زمروں کے ساتھ ساتھ پسماندہ قرار دئے جانے والے علاقوں کی تعداد میںخاطر خواہ اضافہ ہوا۔ پسماندہ طبقات کے لئے تشکیل دئے گئے کمیشن(کے کے گپتا کی سربراہی والا کمیشن) 1993ئ سے اور اس کے بعد ایسے علاقوں ، جو
٦
کہ اب پسماندہ طبقہ رہنے کے اہل نہیں ہیں، کے اخراج پر غور کئے بغیر نئے علاقوں یا دیہات کو پسماندہ علاقوں کے طور شامل کرنے کی سفارش کرتے رہے ہیں۔اسی طرح دیگر زمروں یا سماجی ذاتوں کےلئے بھی کوئی تبدیلی عمل میں نہیں لائی گئی۔عدالت عظمیٰ نے قدیم اعداد وشمار کا حوالہ دیتے ہوئے مدراس ہائی کورٹ کا وہ فیصلہ برقرار رکھا ، جس میں2021کے ایکٹ کے تحت تامل ناڈو کے انتہائی پسماندہ طبقات میں سے ونیاروں کےلئے10.5فیصد اندرونی کوٹاختم کردیاگیاتھا۔منڈل کمیشن کی جانب سے اپنائے گئے معیارات پر مبنی سروے کی عدم موجودگی میں سرکاری محکموں اور پسماندہ طبقہ جات جو کمیشن تشکیل دئے گئے ہیں، ان کی سفارشات پر حکومت کی جانب سے کئے گئے اضافہ جات پر اگر اعتراض کیا جائے تو غیر اغلب ہے کہ یہ عدالتی جانچ کا سامنا کر پائیں گے۔موجودہ کمیشن کے پیشروؤں کے ساتھ غیر جانبداری اورخود مختاری کا جو طریقہ کار وابستہ تھاوہ اب معدوم ہوچکا ہے(اب تک اس کی معیاد بھی ختم ہوگئی ہے)، جیسا کہ ان ذاتوں اور علاقوں سے ظاہر ہوتا ہے جن کو موجودہ کمیشن نے بالترتیب پسماندہ ذاتوں اور پسماندہ علاقوں کے طور نامزد کئے جانے کی سفارش کی ہے۔
ڈھول بجانے والوں کی حیثیت سے جانے جانے والے جوگی اور ناتھ، مختلف موقعوں پر مذہبی رسومات ادا کرنے کےلئے پجاریوں کی حیثیت سے کام کرنے والے ڈبڈبی براہمن اور آچاریہ ، شادی بیاہ کی تقریبات پر ہون کرنے والے گوڈا براہمنوں کے ساتھ ساتھ برتنوں کی صفائی کرنے والے بدارااور اشیائے خورنوش ا ورملبوسات کی بھیک مانگنے والے بوجراؤں کو دیگر مذاہب کے طبقوں میں ان کے ہم منصبوں کے تقابلی جائزے کے بغیر دیگر پسماندہ زمرے کا طبقہ (OBC) قرار دیا گیا ہے۔جاٹ اس کی ایک قابل ذکرمثال ہیں، جو تصور کے کسی بھی پہلو سے سماجی یا معاشی طور پسماندہ نہیں، تاہم انہیں پھر بھی ایسا ظاہر کیا گیاہے۔ تازہ ترین بی سی سی کا نکتہ نظر جامع اور مناسب سروے پر مبنی ہونے کے بجائے مخصوص طبقوں پر مرکوز ہے۔سلسلہ وار فیصلوں اوردیگر قوانین کے نفاذ کے نتیجے میں ہونے والی فاضل مرکوزیت کی رو سے پسماندہ طبقوں کی نشاندہی کرنے کے ریاستوں کا اختیار آئین کے2021کے (102ویں) ترمیمی ایکٹ کے تحت چھِن گیا ہے۔
شیڈول کاسٹ، شیڈول ٹرائب اور تحفظات
آئینِ(جموں و کشمیر)شیڈول کاسٹ آرڈر 1956نے سابقہ ریاست میں تخصیص (ریزرویشن)کا آغاز کیا۔ درج فہرست قبائل کے مقابلے میں درج فہرست ذاتوں نے پچھلے 68برسوں سے مسلسل ریزرویشن کے فوائد
٧
حاصل کئے ہیں اور اپنی آبادی کے تناسب سے یونین ٹیریٹری کے تقریباًہر ادارے میں نمائندگی کررہے ہیں۔ البتہ 1956میں نامزد کی گئیں 13ذاتوں میں سے کچھ ذاتیں غریبی کی بنا پر ریزرویشن کے فوائد حاصل نہیں کر سکی ہیں۔ دستیاب تعلیمی سہولیات تک ان کی رسائی بوجہ افلاس ناممکن بن جاتی ہے۔13ذاتوں میں سے ہر ایک کی سرکاری نوکریوں میں نمائندگی کے بارے میں موزونیت کا نتیجہ اخذکرنے کی خاطر ضروری ہے کہ قابل تعین اعداد وشمارجمع کئے جائیں۔اُن لوگوں ،جن کی نمائندگی غیر موزون ہے، کی الگ سے درجہ بندی کی جانی چاہئے اور انہیںان کی آبادی اور ان کے ساتھ عدم مساوات کی بنیاد پر علاحدہ کوٹا کا حقدار بنایا جانا چاہئے۔
آئینِ(جموں و کشمیر)شیڈول ٹرائب آرڈر 1989کے تحت زیادہ تر لیہہ اور کرگل کے کے رہنے والے 12قبائل اور ذیلی قبائل کو آئین ہند کے مقاصد کےلئے جموں وکشمیر کے ساتھ تعلق کی بنا پردرجِ فہرست قبائل قرار دیا گیا۔گوجر بکروال فرقوں کو شامل نہ کرنے سے ریاست میں کافی بد امنی پھیلی ، جس نے مرکزی حکومت کے یک طرفہ نکتہ نظر کو اجاگر کیا۔1990کی دہائی کے آغاز میں ریاست کے بیشتر حصوں میں بغاوت دیکھی گئی اور مرکزی حکومت نے گوجر بکر وال برادری کو مزاحمت کی حالت میں چھوڑ دینے کے خطرات بھانپ لئے۔
آئین (شیڈول ٹرائب) (ترمیمی) آرڈیننس1991کے ذریعے جموںو کشمیر میں بھی گوجر بکروال طبقے کودرجِ فہرست قبائل قرار دیا گیا۔اس کے بعد اگست 1991 میںایک اور حکم جاری کیا گیا جس کی رو سے ’’گڑی‘‘ اور ’’سپی‘‘ طبقے کو شیڈول ٹرائب کے دائرے میں لایا گیا۔قبائل(زمرہ الف) کی کُل 12لاکھ75ہزار آبادی (2011کی مردم شماری کے مطابق) ،میں سے 36.41فیصد کا تعلق کشمیر صوبے سے ہے اور9.18فیصد کا تعلق وادیٔ چناب سے ہے۔ شینا اور بلتی پس منظر سے تعلق رکھنے والوںکو چھوڑ کرگزیٹیڈ اور اس کے مساوی اسامیوں کی بھرتی میں ان دو خطوں سے مشکل سے کوئی منتخب امیدوارملے گا۔نان گزیٹیڈملازمتوں میں تقرری کے عمل میںافرا تفری کے نتیجے میںزیادہ تر پونچھ، راجوری اور جموں کے اضلاع کے امیدواروںکو منتخب کیا گیا ہے، اور درجہ چہارم اسامیوں پر بھی مقامی لوگوں کی نمائندگی بہت کم تھی۔ضلعی اور صوبائی سطحوں پر غیر مرکوزیت و کیڈر کی تشکیل ، اور متعلقہ اضلاع میں ربط و ضبط کی وقعت کی بدولت صورتحال اتنی تشویشناک نہیں ہے، تاہم ٹھوس بنیادوں پر ترتیب دئے جانے والے قانون کی ضرورت ہے تاکہ تمام خطوں کو روزگار کے موقعوں میں منصفانہ حصہ لینے کا حق حاصل ہوجائے۔مختلف قبائل کے اندر سب سے زیادہ پسماندگان کےلئے ذیلی زمرہ بندی(معتدل خطے) کو ایک خاص سروے سے حاصل کئے گئے قابلِ تعین اعداد و شمار کی بنیاد پر لاگو کیا جاسکتا ہے۔ذیلی زمرے
٨
میں ان کی آبادی کے تناسب کی بنیاد پر گوجر اور بکروال طبقے(معتدل خطے) کو شامل کیا جاسکتا ہے۔
جموں و کشمیر میں آباد گوجر اور بکروال طبقے کی کچھ ذاتوں کو ایرانی شاہی نسب سے وابستہ پوٹھواری تصور کیا جاتا ہے۔ مثلاً کیانی نسب۔اگرچہ اس فرقے کے زیادہ ےر سکالر اپنی جڑیں روس اور جورجیا کے ساتھ منسوب کرتے ہیں، تاہم بھارت میں رہنے والے ان کے مماثل اس کے برعکس سوچتے ہیں۔سپی اور گڑی،جو کہ پیشہ ور چرواہے اور نسلی ڈوگرہ ہیں، کوپہاڑی رہائش کی تاثیر سے 1991میں درج فہرست قبائل قرار دیا گیا۔ البتہ اس میں چوپانوں(کشمیری) کو خارج کیا گیا ، جوگرمیوں میں مویشیوں کو چروانے کےلئے بالائی علاقوں میں مرغزاروں کی طرف ہجرت کرتے ہیں اور باقی موسموں میں واپس میدانی اور مقامی علاقوں میں آتے ہیں۔وہ ذات پر مبنی مذکورہ بالا دو پیشوں کے ساتھ اپنے پیشے کی مشابہت کی بنیاد پر شیڈول ٹرائب کا درجہ دئے جانے کے حقدار ہیں ، لیکن ابھی تک اُن کو اس محروم رکھا گیا ہے۔
جموں و کشمیر میںآئین (جموں و کشمیر) شیڈولڈٹرائبس آرڈر (ترمیمی) ایکٹ2024کے تحت گڈا براہمن، کولی، پڈاری قبیلہ، اور نسلی پہاڑی گروپ کو آئین ہند کی رو سے درج فہرست قبائل قرار دیا گیا ہے۔شیڈول ٹرائب کا درجہ دینے پر غور کرنے کےلئے قبائل یا ذیلی قبائل کی شناخت کی خاطر یوٹی سطح کا کوئی سروے نہیں کیا گیا ہے۔ 2011کی مردم شماری کے دوران درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کی اسی طرح شمار بندی کی گئی تھی۔ مادری زبانوں کی بنیاد 2011کی مردم شماری کے رو سے پہاڑی زبان بولنے والے افراد ، (نہ کہ نسلی پہاڑی گروپ) کی تعداد 977692تھی یعنی یوٹی کی کل آبادی کا 8فیصددرج فہرست قبائل (زمرہ ب )کےلئے10فیصد ریزرویشن (تخصیص)طے کئے جانے سے لگتا ہے کہ گڈا براہمن، کولی اور پڈاری قبیلوں کی کل آبادی زائد از 2لاکھ 20ہزار ہے، جوکہ بنیادی سطح کے آبادیاتی مقامات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ناممکن لگتا ہے۔بی بی سی سے اس بات کی وضاحت مطلوب ہے کہ آیا یہ اعداد وشمار2011کی مردم شماری کے عین مطابق ہیں یا وہ جو 2023/2024کے دوران تھے۔شیڈول ٹرائب کے درجے کے مطالبے کے زور پکڑنے سے پہلے سبھی غیر پہاڑی لوگ1981کی مردم شماری سے پہلے گھر گھر نفر شماری کے دوران فخر کے ساتھ اپنی شناخت کاشر، ڈوگرہ اورپنجابی کے طور ظاہر کرتے تھے۔صدیوں پہلے پیر پنچال کے علاقے میں آباد ہونے کے بعد یہ تارکین وطن مقامی لوگوںکے ساتھ گھل مل گئے۔ مغربی پنجاب سے آئے یہ مقامی لوگ زیادہ تر پہاڑی بولنے والے زمیندار، سرداراور تاجر تھے۔ اس طرح ان کے اور کشمیر اور آس پاس کی ڈوگرہ سلطنطوں سے آئے ان نئے
٩
باشندوں کے درمیان ایک سماجی معاہدہ قائم ہوگیا۔چنانچہ گوجر اورکسان بے زمین مزدور تھے ، لہٰذا وہ نئے غیر پہاڑی مہاجرین کی توجہ اپنے طرف مبذول نہیں کراسکے۔پہاڑی/پوٹھواری ایل او سی کے دونوں اطراف میر پور، پونچھ، راجوری اور مظفر آباد کے علاوہ بڑی حد تک پاکستانی پنجاب کے راولپنڈی صوبے میں پوٹھوار کی سطح مرتفع پر پھیلے ہوئے ہیں۔ان میں سے زیادی تر لوگ اپنے آبا و اجداد کو مشرق وسطیٰ کے ساتھ جوڑتے ہیں،جبکہ کچھ دیگر، خاص طور پر غیر مسلم ہند۔گنگائی تہذیب کے ساتھ۔لیکن اب سکالر اس بات پر متفق ہیں کہ پہاڑی، ہند۔ آرایائی نسل سے وابستہ ہیں اورپوٹھوار کے رہنے والے نسلی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ پچھلے 700برس سے لداخ میں بود وباش کررہے کشمیری لوگ، جنہیں آرگان کہا جاتاہے، اب زبان اور ازدواجی رشتوں کی وساطت سے مقامی لوگوں کے ساتھ گھل مل گئے ہیں۔یہ لوگ شیڈول ٹرائب کے درجے کے اہل نہیں ہیں، کیونکہ وہ ان 12قبائل یا ذیلی قبائل میں شامل نہیں ہیں جن کو شیڈول ٹرائب کا درجہ ملا ہے۔لیہہ میں133,487 اور کرگل میں 140,802 کی کُل آبادی میں سے ان اضلاع میں درج فہرست قبائل کی آبادی بالترتیب 95,857 اور122,336 ہے۔لہٰذا ایک نسل کے طور قبول کرنے میںپہاڑیوںکے ساتھ زیادہ وقت تک ٹال مٹول نہیں جاسکتا۔کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنی مادری زبان کے طور پر یہ زبان والوں کی تعدادمستقبل بعید میں پہاڑی نسل کی اصل اور حقیقی آبادی سے کہیں زیادہ ہوجائے۔
گڈا براہمن اعلیٰ درجے کے براہمن ہیں اور مذہبی رسومات ادا کرتے ہیں جبکہ کولی کسان ہیں۔ یہ دونوں فرقے ڈوگرہ نسل کی تجسیم کا اظہار کرتے ہیں۔ اِن دو طبقوں کے مماثل طبقوں کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے ، جو عقیدے کے علاوہ تقریباً تمام مشترکات کے ساتھ یوٹی میں رہتے ہیں۔غیر ڈوگرہ علاقوں میںیہ لوگ اور ان کے مسلمان اور پنجابی مماثل افراد کس طرح تعلق وطن یا مقامیت، قدیم جامد خصوصیات،جغرافیائی تفرید، معاشی پسماندگی، سماجی امتیازاورربط یا تعلق کی ناآشنائی کی بنیاد پر ترتیب دئے گئے عوامل کی کسوٹی پر کھرا اترتے ہیں، جو شیڈول ٹرائب کا درجہ عطا کرنے کے دعووں کی مظوری کےلئے تشکیل دئے گئے ہیں۔
جموں و کشمیر میں قانونی نظریہ
مرکزی زیر انتظام علاقے، جموں و کشمیر میں نوکریوں اور پیشہ وارانہ اداروں میں داخلے میں تخصیص کا نظام جے اینڈ کے ریزرویشن ایکٹ 2005، [جے اینڈ کے ریزرویشن (ترمیمی )ایکٹ 2023کے ساتھ پڑھا گیا]کی
٠١
رو سے چلایا جاتا ہے۔درج فہرست قبائل کےلئے نوکریوں کا کوٹا20فیصد ہے،درج فہرست ذاتوں کےلئے8فیصد، دیگر پسماندہ طبقوں کےلئے8فیصد، مخصوص پسماندہ علاقوںکےلئے10فیصد اور حد متارکہ /بین الاقوامی سرحدی علاقوں کےلئے4فیصد(50%) ہے۔شیڈول ٹرائب، شیڈول کاسٹ، او بی سی، آر بی ائے اور ایل او سی/ْْْْْْآئی بی کے علاوہ عمومی زمرے میں معاشی طور کمزور طبقے کےلئے 10فیصد کوٹا مخصوص ہے۔جسمانی طور خاص افراد کےلئے 4جبکہ سابق فوجیوں کےلئے 6فیصد افقی ریزرویشن مخصوص ہے۔
ہند۔پاک سرحد کے ساتھ مناسبت
آنند کمیٹی نے سرحدی علاقوں اور دیہات کوسماجی اور تعلیمی لحاظ سے پسماندہ قرار دئے گئے علاقوں اور دیہات کے ساتھ شامل کرنے کے بجائے ان کےلئے ایک علاحدہ اصطلاح وضع کرنے کو ترجیح دی۔ایسا حد متارکہ کی وجہ سے کنبوں کے بکھرجانے اور علاقوں کی تقسیم سے لوگوں پر پڑنے والے اثرات کومد نظر رکھ کر کیا گیا۔اس کے علاوہ مستقبل کی غیر یقینیت اور بھارتی و پاکستانی فوجوں کے درمیان وقت وقت کی جھڑپیں (1990سے عملی طور ایک جنگ جیسی صورتحال ) جس کی وجہ سے وہاں کے باشندوںکےلئے سخت مشکلات پیدا ہوئیں اور بچوں و دیگر طالب علموں کی پڑھائی پرانتہائی منفی اثرات کا مرتب ہونا بھی اس کی وجوہات بنیں۔ عسکریت، آپریشنز اورحملوں کی وجہ
سے کشمیر صوبے اور وادیٔ چناب میںسرکاری اعداد و شمار کے مطابق1990سے تقریباً تیس برسوں کے دوران لگ بھگ 45ہزارانسانی جانیں تلف ہوئیں ، ہزاروں لوگ معذور یا زخمی ہوئے اور مجموعی طور کام کے پانچ برس ضائع ہوگئے۔بین الاقوامی سرحدوں کےلئے قائم کی گئی مثال ان دونوں خطوں کے اُن امیدواروں کے استحقاق کے مقابلے میں بے اہمیتی کو واضح کرتی ہے، جو امیدوار تمام مشکلات کے باوجود بچ گئے، عسکریت کے تصور کو رد کیا اور سکیورٹی کے انتہائی غیر موزون و غیر موافق حالات میں تعلیم حاصل کی۔بنگلہ دیش کے ساتھ سرحد مشترک کرنے والے شمال مشرق ومغربی بنگال اور پاکستان کے ساتھ سرحدیںمشترک کرنے والے پنجاب، راجستھان اور گجرات میں رہنے والے افراد/مکینوں پر اس کے اطلاق کی ایک ناقص مثال ہے ،لیکن مناظرے میں ناقابل چلینج ہے۔

١١
معاشی طور کمزور طبقوں کا تعین
اس پالیسی کی ایک پیچیدہ جہت میں اقتصادی طور کمزور طبقات کو متعین کرنے کا عمل شامل ہے۔خاص طور سے تجارت اور زراعت سے حاصل ہونے والی آمدنی کا تخمینہ لگانے میںہیر پھیر یا ساز باز کا قوی احتمال ہے۔
کوئی بھی شخص مندرجہ ذیل شرائط پورا کرنے کی صورت میں ہی معاشی طور کمزوریعنیEWSسند حاصل کرنے کا اہل ہو سکتا ہے:۔
1) وہ ریزرویشن (تخصیص)کے حقدار کسی بھی طبقے سے تعلق نہ رکھتا ہو۔
2 ) تمام وسائل بشمول رزاعت، تجارت اور تنخواہ سے حاصل ہونے والی کنبے کی کل سالانہ آمدن آٹھ لاکھ روپے سے کم ہونی چاہئے۔
3) درخواست دہندہ کے کنبے کے پاس پانچ ایکڑ (٠٤ کنال ) سے زیادہ زمین نہیںہونی چاہئے۔
4) درخواست دہندہ کے کنبے کے رہاشی فلیٹ (اگر ہو )کا رقبہ ایک ہزار مربع فُٹ سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔ اور
5) درخواست دہندہ کے کنبے کا رہائشی پلاٹ اگر میونسپل حدود میں ہے تو ایک سو مربع گز(3.3مرلہ)سے کم ہونا چاہئے اور اگر میونسپل حدود کے باہر ہو تودوسو مربع گز(6.6مرلہ)سے کم ہونا چاہئے۔
زرعی آمدن کا تخمینہ لگانے میں غیرمعمولی پیچیدگیاںدرپیش ہیں۔جموں و کشمیر میں حصہ موضع کا 83.78 فیصدحاشیائی ہے، جو کاشت شدہ رقبے کے 47.17فیصد حصے کی عکاسی کرتا ہے۔فصلوں کی پیداوار اور آمدنی کے امکانات میں واضح تفاوت اقتصادی حیثیت کا راست تعین کرنے میں سخت چلینج پیدا کرتے ہیں۔میوؤں کی پیداوارجیسے عوامل، جن میں زیادہ فصل دینے والے سال اور کم فصل دینے والے سال کے درمیان ڈرمائی طور پر اتار چڑھاو ہوسکاتا ہے،بھی آمدن کا صحیح تخمینہ لگانے کے عمل کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔لیکن جموں و کشمیر میںباغاتی زمین کی نسبت اس کی عمل آوری کے تعلق سے بالائی حد کو پانچ ایکڑ سے کم کرکے تین ایکڑ مقرر کیا جانا چاہئے۔ یوں ایک ٹھو س لائحہ عمل ترتیب دیا جاسکتا ہے۔۔تاہم زرعی زمین کی نسبت بالائی حد پانچ ایکڑ ہی ہونی چاہئے۔علاوہ از ایں،آمدنیوں بشمول اثاثوں اور جائیدادوں کی تشخیص کےلئے طریقۂ کار کی عدم موجودگی کے چلتے کاروباری افراد آمدن کی اسناد میں ہیر پھیر کرسکتے ہیں۔

٢١
پیشہ وارانہ کورسز میںداخلہ
لیفٹننٹ گورنر (ایل جی) کی سربراہی والی انتظامیہ نے 2022ئ میں میڈیکل کالجوں میں داخلوں کےلئے نیشنل پول (این پی) نظام میں شامل ہوکرنظام میں ایک اہم تبدیلی لائی۔اس غیر معمولی فیصلے میں2024میں پوسٹ گریجویٹ)پی جی) اور پوسٹ گریجویٹ ڈپلوما (پی جی ڈی)کورسزکےلئے 50فیصد (346میں سے173)
نشستیں اور ایم بی بی ایس انڈر گریجویٹ پروگرام کےلئے15فیصد (1107میں سے 166) نشستیں قومی سطح کے مسابقتی پول کےلئے مختص کرنا شامل تھا۔اس فیصلے نے مقامی امیدواروں کو بھی قومی سطح پر نشستوں کے ایک وسیع پول
کے مقابلے میں حصہ لینے کا اہل بنا یا۔اس فیصلے میںمکمل سروے اور پالیسی کے مثبت و منفی پہلووںکے تجزیے یا نوجوانوں کو ہونے والے نفع یا نقصانات کا جائزہ لینے کا کوئی خیال نہیں رکھا گیا تھا۔انتظامیہ نے اس پالیسی کو بنیادی طور پر پیشہ وارانہ کورسز کے داخلوں میں قومی یکجہتی اور یکسانیت کے نظریے سے درست قرار دیا۔تاہم وسیع تجزیے کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس فیصلے کے اطلاق نے نظام سے متعلق کئی اہم معترضانہ یا تشویشناک مسائل اور غیر ارادی نتائج کو بے نقاب کیا ہے۔
آبادیاتی پیچیدگیاں
اس پالیسی سے جو آبادیاتی اور مسابقتی منظر نامہ ابھر کر آیا ہے، وہ خاص طور سے کئی باتیں منکشف کرتا ہے۔نیشنل پول پالیسی نے بنیادی طور اُن ریاستوں کے امیدواروں کو فائدہ پہنچایا ہے جن کا محل ِوقوع حکمت عملی کے لحاظ سے مناسب ہے۔بیرون خطوں سے تعلق رکھنے والے امیدواروں کی تعدادجنرل زمرے کے مقامی امیدواروں کی تعداد سے اکثر اوقات کہیں زیادہ ہونے کے نتیجے میںجموں و کشمیر میں مطلق آبادیاتی تبدیلی عیاں ہے۔ثقافتی اور لسانی اختلافات سے پیدا ہونے والے اہم مواصلاتی چلینجوں کی وجہ سے یہ رجحان مزید پیچیدہ بن جاتا ہے۔اور اس میں خطے کے سخت موسمی حالات مزید پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے۔اس سے منصفانہ مقابلے کے دلیل کی کمزوری عیاں ہوجاتی ہے۔ سال2024کے دوران نیشنل پول کےلئے پوسٹ گریجویشن میں 173اور انڈر گریجویٹ (ایم بی بی ایس) میں166نشستیں چھوڑ دینے کے مقابلے میں حاصل ہوئے فوائد انتہائی معمولی نوعیت کے ہیں اور وہ بھی ایسے شعبوں میں جن میں یوٹی اضافی افرادی قوت کے ساتھ پوری طرح سیر ہے۔یہ بات کافی تکلیف دہ ہے کہ طبی تعلیم کے بڑھتے ہوئے خواہشمند امیدواروں کےلئے اب میڈیکل کالجوں ، جن کو
٣١
’’جموں و کشمیر میں میڈیکل کالج۔۔ نہ کہ جموںو کشمیر کے میڈیکل کالج ‘‘ کے طورتصور کیا جاتا ہے، کے پوسٹ گریجویٹ پروگراموں میںمحض 50 فیصد اور یوجی پروگراموں میں 85فیصد نشستوں کے موقعے دستیاب ہیں۔
تخصیص( ریزرویشن) کے خد وخال کی پیچیدگیاں
تخصیص کا خد وخال ازخود پیچیدہ اورکثیر رخی ہے۔ارتفاعی ریزرویشن کی رو سے مختلف زمروں کو مناسب کوٹا ملتا
ہے۔ درج فہرست ذاتوں کو20فیصد، درج فہرست قبائل کو 8فیصد، مخصوص پسماندہ علاقوں کو 10فیصد، دیگر پسماندہ طبقوں کو 8فیصد، مقامی امیدواروں/کامل سرحدی علاقوں کو 4فیصد اور اقتصادی طور پسماندہ طبقوں کو 10فیصد کوٹا دیا جاتا ہے۔پوسٹ گریجویٹ پروگراموں کی مسطح ریزرویشن میں دفاعی اہلکاروں ، نیم فوجی اہلکاروں اور جموں و کشمیر پولیس اہلکاروںکے بچوں کے علاوہ کھیلوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والوں کےلئے مخصوص کوٹا شامل ہے۔دفاعی اہلکاروں ، نیم فوجی اہلکاروں اور جموں و کشمیر پولیس اہلکاروںکے بچوں کے علاوہ کھیلوں میں نمایاں کارکردگی دکھانے والوں کےلئے پی جی کورسز کےلئے مسطح ریزرویشن میں ایک فیصد فی زمرہ ریزرویشن مخصوص ہے، جبکہ یوجی داخلے کےلئے جے کے پی ایم کو 1فیصد،سی ڈی پی کو 3فیصد، سپورٹس کو2فیصد اور پی ڈبلیو ڈی کو4فیصد (10فیصد) ریزرویشن ملتی ہے۔
زمرۂ عام میں تقسیم کاری کی تبدیلی
تخصیص کا نظام اور داخلے کے عمل کے مختلف پہلوزمرہ جات کے ایک پیچیدہ تعامل کو ظاہر کرتے ہیں، جو عمومی زمرے میں نشستوں کی تقسیم کے عمل کو کافی حد تک تبدیل کرتے ہیں۔اس پیچیدہ طریقۂ کار کی دو بنیادی وجوہات ہیں:۔
اولاً یہ کہ مخصوص ریزرو زمروں،آر بی اے، ایس سی، ایل اے سی /آئی بی اور او بی سی کے امیدوار میرٹ اورمقرر کئے گئے کٹ آف سکور کی بنیاد پر عمومی زمرے کی وساطت سے بھی کوالیفائی کرتے ہیں۔جب یہ امیدوار جنرل کیٹگری میں نشستیں حاصل کرتے ہیں تو ان کے اصل زمرے میں ان کی جگہ متبادل اہل امیدوارنشستیں حاصل کرتے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ عمومی زمرہ اب خالصتاً عام زمرے کے امیدواروں کےلئے مخصوص نہیں رہا ہے ، بلکہ یہ اب متعدد زمروں کے امیدواروں کا مرکب بن گیا ہے۔
ثانیاً یہ کہ افقی ریزرویشن کے اہل امیدوار بنیادی طور جنرل کیٹگری سے ہوتے ہیں، جو اپنی غیر معمولی تعلیمی
٤١
کارکردگی کی بنیاد پر ممیز ہوتے ہیں۔وہ یہ برتری ان اعلیٰ تعلیمی اداروں تک رسائی کے نتےجے میں حاصل کرتے ہیں، جو فوجی، سلامتی اور پولیس اہلکاروں کے بچوں کو یہ خدمات دستیاب رکھتے ہیں۔یہ خاص الخاص سکول اعلیٰمعیار کا تعلیمی نظام فراہم کرتے ہیں ، جس سے زیادہ قابل امیدوار پیدا ہوتے ہیں۔یہ طرز عمل جنرل کیٹگری کے قابل اور محنتی امیدواروں کےلئے دستیاب موقعوں کو معدوم کردیتا ہے۔بہتر یہ تھا کہ زمروں کے مابین روسٹر پوائنٹس طے کئے جاتے، جس سے افقی ریزرویشن میںنوکری کےلئے استعمال میں لائے جانے والے نکتہ نظر کی عکاسی ہوتی۔علاوہ ازیں 5اگست2019کی انتظامی تبدیلیوں کے بعد خاکی وردی میں اپنے فرائض ادا کرنے والے اہلکاروں کے بچوں کےلئے خصوصی دفعات کو برقرار رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔طویل مدتی تعیناتی اور کنبے کے ساتھ طویل مدتی قیام سے یہ امیدوار اب ڈومیسائل درجے کا حقدار بنتے ہیں۔اور اس طرح یہ امیدوار میڈیکل کالجوں میں داخلے کےلئے موزون ومناسب امیدوار بنتے ہیں۔موجودہ نظام تشویشناک طور پر جنرل کیٹگری (جی سی) کوٹا کو موثٔر انداز میں ختم کررہا ہے۔سال 2024 میں پوسٹ گریجویٹ پروگراموں کےلئے مخصوص برائے نام کوٹا 40فیصد(68نشستیں) سے کم ہوکر عملی طور پر 25.43فیصد ہوا ہے۔اسی طرح انڈر گریجویٹ پروگرام بھی 40فیصد(376نشستیں) سے کم ہوکر 35فیصد رہ گیا ہے۔یہ منظم کمی عمومی زمرے کے قابل امیدواروں کو نمایاں انداز میں متاثر کرتی ہے۔
لوکل سیلف گورننس کی حدود
مذکورہ پالیسی ، جو کہ جموں و کشمیر کی پچھلی منتخب حکومتوں کی وضع کردہ پالیسی موقف کے بالکل برعکس ہے، کا فیصلہ عمومی طور ایک منتخب حکومت کو ہی کرنا چاہئے تھا۔لیفٹننٹ گورنر نے وزرا ئ کی کونسل کے مشورے پر عمل نہیں کیا ہے۔ اس پالیسی کے تناظر میں نظم و ضبط کا نکتہ نظر نوآبادیاتی دور کی دوہری حاکمیت کے ساتھ بہت مشاہبت رکھتا ہے،(حکومتِ ہند: 1919کا ایکٹ اور 1935کا ایکٹ)جہاں کلیدی انتظامی فیصلے مقامی طور منتخب کئے گئے نمائندوں کو جھانسے میں ڈال دیتے ہیں۔اس انتظامی طریقہ کار نے نادانستہ طور پر مقامی سیلف گورننس کی مانگ کے جذبے کو جنم دیا ہے ، جو بیرون انتظامی اختیار کے خلاف تاریخی نوعیت کی تحریکوں کی یاد دلاتا ہے۔ایک ذرا سی چنگاری بڑی آگ سلگا سکتی ہے اور سونامی جسیی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔

٥١
سفارشات (اعلیٰ تعلیم)
لہٰذا فوری طور کچھ اصلاحی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔حکومت کو قومی پول میں شرکت کرنے کے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئے، ریزرویشن پالیسیوں کا جامع جائزہ لینا چاہئے۔۔خاصکر خصوصی طبی تعلیم کے حوالے سے۔۔ اور داخلوں کے تعلق سے ایک ایسا مناسب و نفیس نکتہ نظر اپنانا چاہئے جو قومی یکجہتی کومقامی موقعوں کے ساتھ متوازن رکھے۔پوسٹ گریجویٹ اور سپر سپیشلٹی میڈیکل کورسز میں ریزرویشن پر عوامی بحث و مباحثہ مبصرانہ غور و فکر کی بنیاد پرایک جامع قومی جائزے کا مطالبہ کرتا ہے۔تخصیص کا جواز اس وقت زائل ہونے لگتا ہے جب اسے اعلیٰ درجے کے تعلیمی مراحل پر لاگو کیا جائے۔شروعات کے عدم مساوات کے باوجودامید وار اب تعلیمی منظر نامے میں یکسانیت محسوس کررہے ہیں۔زمروں کی بنیاد پر درجہ بندی سے قطع نظرمعیاری تعلیم، ادارہ جاتی سہولیات، تعلیمی ماحول اور پیشہ وارانہ تعلیمی نظام جیسی سہولیات سبھی امیدواروں کےلئے اب قابل رسائی بن گئی ہیں۔ انڈر گریجویٹ کورسز کے دوران مخصوص زمروں کے امیدواروں کو وظائف، مالی امداد اور مقررہ ہدف کی فیکلٹی کی مدد کے ذریعے سرکار کی خاطر خواہ اعانت مہیا رہتی ہے۔معاونت کا یہ جامع طرز عمل انہیںراسخ فوقیت دیتا ہے ، جو داخلے کی ابتدائی سطح کی تدابیر سے بھی وسیع ہوجاتے ہیں۔بین الاقوامی سطح پر دیکھا جائے تو ترقی یافتہ قومیں ایسے شعبوں میں زمرہ بندی کی حدود نافذ نہیں کرتی ہیں، جن میں فکری تحقیق و تجسس لازم ہوتے ہیں۔ان کا رویہ غیر محدود علم کے حصول کو ترجیحات میں شامل کرتا ہے ، خاص طور ایسے شعبوں میں جن میں غیر معمولی صلاحیتیں مطلوب ہوتی ہیں، مثلاًطبی تحقیق، ٹیکنالوجی، اطلاعاتی ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت وغیرہ۔درج فہرست قبائل اور درج فہرست ذاتوں کےلئے ’’ کریمی لیئر ‘‘ کے تصور کو متعارف کرنے کے علاوہ اور ریزرویشن کے فریم ورک میں نفاست لانے کی ضرورت ہے۔اس طرز عمل کا مقصد اندرونی سماجی و اقتصادی تنوع کو تسلیم کرتے ہوئے ان زمروں کے اندر پہلے سے نظر انداز کئے گئے فریقوں تک پہنچنا ہے۔ایک ترقی پسند انہ حکمت عملی میں تخصیص کے فوائد کو مرحلہ وار طریقے پر ختم کرنے کے عمل کوشامل کیا جانا چاہئے۔اس میں ان امیدواروں اور ان کے قانونی ورثائ کی حمایت کا عمل بتدریج ختم کرنے کا لائحہ عمل بھی ہونا چاہئے، جن امیدواروں نے پہلے ہی لامحدود فوائد حاصل کئے ہوں۔

٦١
ملازمتوں میں آگے بڑھنے کے راستے
یوٹی سطح کا ایک جامع سروے لازمی ہے۔نظامت اقتصادیات وشماریات کے ذریعے کئے جانے والے اس سروے میںقبائل، ذیلی قبائل اور شیڈول ٹرائب و شیڈول کاسٹ کی ذاتوں کی ذیلی زمرہ بندی پر توجہ مرکوز کی جانی چاہئے، جو کہ قومی سطح کے زمروں کے ساتھ ہم آہنگ اور یکساں ہوگا۔فی الحال ملازمتوں اور پیشہ وارانہ کورسز کے
داخلوں میں ان گروپوں کی کوئی نمائندگی نہیں ہے، مثلاً معتدل خطے۔ سروے کا مقصد پہاڑی نسلی گروپ کی شناخت کرکے اسے پہاڑی بولنے والوں سے علاحدہ کرنا بھی ہونا چاہئے۔اسے ان گروپوں کو شیڈول ٹرائب کا درجہ دینے کی سفارش بھی کرنی چاہئے، جو سرکاری طور تسلیم کئے گئے شیڈول ٹرائب کے ساتھ مذہبی عقاید کے فرق کو چھوڑ کرباقی معاملات میں اشتراکیت اور یکسانیت رکھتے ہوں۔اس علاوہ سروے کو آر بی اے، ایل اے سی/آئی بی، اور سوشل کاسٹ (او بی سی) زمروں کے خاتمے کی بھی وکالت کرنی چاہئے۔ان کو منڈل کمیشن کے جانچ کے 11نکاتی معیار کے مطابق او بی سی کے ساتھ تبدیل کیا جانا چایئے۔کسوٹی کے اس معیار میں اب تین نئے نکات شامل ہوں گے۔۔۔۔ سطح سمندر سے5500فٹ یا اس سے زیادہ کی اونچائی پر واقع ہونے کی وجہ سے کٹھن خطہ اور موسمی خطرات، قابل بھروسہ رابطے اور صحت عامہ پر عسکریت پسندی کے اثرات۔ان نئے او بی سیز کےلئے ریزرویشن کا فیصد ان کے حصے کے تناسب سے نصف ہوناچاہئے، جو منڈل کمیشن کی جانب سے طے کئے گئے قومی معیارات کی عکاسی کرتا ہے۔اس تبدیلی سے عمومی زمرے کے کوٹا میں بھی اضافہ ہوگا۔مزید برآں اس بات کی ضرورت ہے کہ سابق فوجیوں کےلئے6فیصد افقی ریزرویشن کی دوبارہ جانچ کی جائے، اور یہ ان کے آبادیاتی اعداد و شماراور پیشہ وارانہ شعبوں میں داخلے کے ساتھ ہم آہنگ ہونی چاہئے، جبکہ مسطح ریزرویشن کو معاشی طور کمزور طبقوں اور کھلاڑیوں کےلئے محدود کرنا چاہئے۔آبادی کے حوالہ جات ریاستی سطح پر 2001سے2011تک کی دہائی کی شرح نمو کی بنیاد پر 2024کی متوقع آبادی پر مبنی ہونے چاہییں۔
مصنف ایک ریٹائرڈ آئی اے ایس آفیسر،
پبلک سروس کمیشن کے سابق چیئر مین
اور فی الوقت جموں میں مقیم ایک وکیل ہیں۔
٭٭٭٭

By SNS KASHMIR

Shaharbeen News Service Kashmir is a news service which covers, gathers, writes, and distributes news to newspapers, periodicals, radio and television broadcasters, government agencies, and other users. We at SNS Kashmir believe in fair and independent journalism to inform our masses or subscribers and readers about the happenings around the world. The prime focus of the news gathering and reporting is focused on Jammu and Kashmir state.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.